بس یادیں باقی ….

نانی کہا کرتی تهیں دسمبر کے دکه ہمیں سقوط ڈهاکہ سے ملے ہیں اور صرف دسمبر کیا یہ دکه زندگی کی ہر سانس کے ساته ہے اور ایک تم ہو تمہیں دسمبر میں اٹکهیلیاں سوجهتی ہیں … اب میں نانی کو کیا بتاتی کہ جب ابرار کا بهیگا بهیگا دسمبر ہو ، عامر سلیم کی دسمبر میں منگل کی سہانی شام آجائے ، بہت سارے نیو ائیر کارڈز ملنے والے ہوں ، ساته بہترین شاعری کا ذخیرہ ہو جسے ایف ایم پہ سنا کر واہ واہ کے ساته مشہور ہونا مقصد ہو تو دسمبر کی حسین صبح ، اداس مگر خوبصورت شام اور خاموش راتیں مزید سحر انگیز ہوجاتی ہیں … اب یہ شوق گزرے وقت کا قصہ ہوئے بس یاد باقی …..
پهر وہی سال کے آخری دن ہیں جب نئے سال کی شاعری تلاش کرتے آدهی رات گزار کے دوپہر کو صبح ہوا کرتی تهی تو چائے کی خوشبو سے لطف اندوز ہوتے ہوئے دهوپ کی رنگت کے ساته فضا میں پهیلے گرد وغبار پہ بهی غور ہو جایا کرتا تها ، سارے کهیل وقت کے ہیں …. … continue reading this entry.

فلو نامہ ….

جانے کون سی تحریر تهی جس میں لکها تها زندگی جتنی بهی مصروف ہو آنے جانے والے ہر موسم میں حسن تلاش کرتی رہوں گی … حسین نظارے دیکهتی رہی مگر بلاگ پہ تعریفی تحریر نہ آسکی … سوچوں میں ہزار عنوان رہے جن پہ لکها جا سکتا تها مگر فرصت میں بهی ذہن یہی تانے بانے بنتا رہ جاتا ہے کہ کون کون سے کام پینڈنگ پڑے ہیں …. 

اور اب جب سے فلو نے ہیلو ہائے کی ہے ، سستی و کاہلی کی ساری حدیں فنش ہو گئی ہیں تو سوچا لیٹ کر ٹشو اور رومال گندے کرنے سے بہتر فلو نامہ ہی لکه دوں ….

مگر ہے یہ سب ناشکری کی سزا …. جب اپنی ہی آواز بری لگنے لگے (کچه دنوں سے جب بهی کسی سے فون پہ بات کر رہی تهی اپنی آواز بری لگ رہی تهی )… چائے کا رنگ بکواس اور ذائقہ بدمزہ لگ رہا ہو …. اللہ کی ثناء میں کمی ہو تو ہر چیز کی اہمیت یاد دلانے کو زکام کا تحفہ ملا مجهے …

جوشاندہ پی کر اور ہر چهینک پہ الحمداللہ ادا کرکے ناشکرے پن کا ہرجانہ ادا ہوا …

اور ایک مزے کی بات یہ کہ زکام میں آواز رومینٹک ہو جاتی ہے ( یہ میرا خیال ہے ضروری نہیں کہ ہرکوئی متفق ہو ) بلکل ویسے جیسے بقول ” احمد فراز ” باتیں رکی رکی سی لہجہ تهکا تهکا سا …. 

کبهی کسی سے پوچه لیں بے شک بس بندے کا باذوق ہونا ضروری ہے 😊

اب سچ کہیں تو یارو ہم کو خبر نہیں تهی 

بن جائے گا قیامت اک واقعہ ذرا سا …

ٹهنڈا پانی پیا تها اور تیز مصالحے والے چهولے کهائے تهے بس ، مگر 4 دن ہونے کو آئے سڑ سڑ سڑ آچهیںںں 😡

الوداع دسمبر ۔۔۔۔

دسمبر براؤن ہو پنک یا سرمئی سوگوار ہی رہتا ہے ، لیکن کیوں ؟؟؟ باقی مہینوں میں کیا اداسی نہیں ہوتی ۔۔۔ اپنے پیارے بچھڑتے نہیں یا ان کی یاد نہیں آتی ۔۔۔۔ سوچ کے گدھے دوڑانے پر خیال آیا کہ ہر مہینہ دُکھی کرتا ہے مگر جب دسمبر میں پورے سال کا جائزہ لیا جاتا ہے تو ایک ٹھنڈی آہ دسمبر اداس کر دیتی ہے ۔۔۔
جنوری میں “ وہ سالِ نو پہ ملا بھی تو سرسری اب کے
اداس کر گئی پہلی ہی جنوری اب کے “
فروری میں کچھ لوگوں کو خوش فہمیاں مار دیتی ہیں اور کچھ کو ویلنٹائن کے دکھ ۔۔۔ ۔۔۔ مارچ میں یومِ خواتین ہوتا ہے مرد حضرات دُکھی ۔۔۔ اپریل فول کی بدتمیزیاں غصہ تو دلائیں گی ناں ۔۔۔۔ مئی جون گرمی لوڈ شیڈنگ کے دُکھ ۔۔۔۔ جولائی سے اگست ساون کے دُکھ ( بارش نہیں ہوئی ناں آخر 😦 )
ستمبر سے اکتوبر پت جھڑ کے ساتھ سردی کا انتظار ۔۔۔۔
گیارہ ماہ کی برداشت اگر بارہویں مہینے جواب دے جائے تو الزام محبت پہ کیوں یہ کوئی بات ہوئی بھلا ۔۔۔ اور اس بار تو دسمبر نے بھی حد کردی جون کا منظر دکھا کے الوداع کہہ رہا ہے ۔۔۔ نہ وہ صبحیں نہ شامیں ۔۔۔۔ موسم پر بھی پاکستان کے حالات کا اثر ہوگیا ۔۔۔۔ کون جانے اگلا سال کیا رنگ دکھائے مگر پھر بھی اُمید باقی ۔۔۔۔ اللہ کرے نیا سال سب کو راس آئے آمین ۔۔۔۔ ( اس تحریر کو لکھتے ہوئے شدت سے احساس ہوا میں لکھنا بھول چکی 😦 )

آخخ تھو ۔۔۔۔۔۔۔۔

زندگی غم سے عبارت ہے خوشیاں کشید کرنا پڑتی ہیں اور جب خوشی مل جائے تو مدّتوں اُس کے ہر لمحے کا یوں مزا لیا جاتا ہے جیسے ہم اپنے پسندیدہ مشروب کا آخری قطرہ بھی ضائع نہیں ہونے دیتے ۔۔۔
شادی بھی ایسی ہی خوشی کا نام ہے عمر بھر کی جمع پونجی لُٹا کے والدین بیٹی بیاہتے ہیں کہ وہ اپنا گھر آباد کرے ۔۔۔ اور خود خالی جھولی کے ساتھ زندگی کی آخری سانس تک اسے خوش دیکھ کے پُرسکون رہیں ۔۔۔ مگر قسمت کہیں یا دنیا داروں کی سفاکیاں کبھی کبھی آنسو مقدر ٹہرتے ہیں ۔۔۔
زندگی بھر نافرمان بیٹے سے جب مائیں کہتی ہیں بیٹا تمہارے لیئے دلہن پسند کرلی ۔۔۔ اس وقت باچھیں کھل جاتی ہیں ۔۔۔۔ یاد داشت کھو جاتی ہے ۔۔۔۔ جس طرف آنکھ اٹھائی جائے دلہن نظر آتی ہے ۔۔۔ شادی کے ایک ہفتے بعد خیال آتا ہے او ہو مجھے تو کوئی اور پسند ہے ۔۔۔۔ پھر دلہن کا جینا مشکل ۔۔۔ اماں ابا معصوم بن کے کہتے ہیں پتہ ہی نہیں تھا کس کلموہی نے ڈورے ڈال رکھے ہیں ۔۔۔( یہاں بھی قصور بیٹے کا نہیں ہے )
رکھنا نہیں چاہتا اس سے شادی کرنے کی ضد کر لی ہے ۔۔۔ انوکھے لاڈلے کی ضد پوری کرنی ہے ، پرائی بیٹی کی کیا پرواہ ۔۔۔۔
اس طرح کے دو واقعات ہو چکے جاننے والوں میں پہلے ہی ہمت کر لیں لڑکے تو زندگی خراب نہ ہو ۔۔۔ جب سے پتہ چلا بہت دُکھی ہوں میں اس بربادی پہ ، کہہ آئی ہوں اتنا پیٹیں لڑکے کو کہ ساری پسند ہوا ہوجائے ۔۔۔ یہ دو لفظ دُکھ کا مداوا تو نہیں ہوسکتے پھر بھی ہونہہ !!!!! آخخ تھو ۔۔۔۔۔۔۔۔

موسمِ خزاں ۔۔۔۔

اب کے سال موسم کا مزاج گرم ہی رہا ۔۔۔ برکھا برسی نہ مٹی کی خوشبو نہ بھیگی فضا میں سبزے نے دل لُبھایا ۔۔۔۔ اور برسات کے مہینے گزر کے ویران اکتوبر آگیا ۔۔۔ ہر منظر خاموش ۔۔۔ پتّے ساکت سہمے سہمے کہ ان کا شجر سے وقتِ رخصت قریب ہے ۔۔۔ اداس لیکن خوبصورت رنگوں سے بھرے موسمِ خزاں خوش آمدید ۔۔۔۔

welcome-autumn-3

تعمیرِ نو اور ہم ۔۔۔۔

کافی دنوں سے یوں محسوس ہورہا ہے جیسے کچھ کمی سی ہے ۔۔۔۔ سارے کام ہو رہے ہیں مگر نظرانداز ہورہا ہے تو بیچارہ بلاگ ۔۔۔۔ لکھنے کے لیئے سوچنا پڑتا ہے اور سوچنے کے لیئے مجھے خاموشی چاہیئے تاکہ لفظوں کے تانے بانے بُن سکوں مگرخاموشی ہم نے اس شام گِروی رکھ دی تھی جب یہ فیصلہ ہوا تھا کہ گھر کے ایک حصّے کی تعمیر کے لیئے گھر ٹھیکیدار کے حوالے کر دیا جائے ۔۔۔ اس کے بعد اب تک گھر مزدوروں کے قبضے میں ہے ۔۔۔۔
ہر وقت کی ٹھک ٹھک دھم میں خاموشی کیسے ہو ۔۔۔۔ بڑے کمروں اور کُھلے صحن کے عادی ہم دو کمروں تک محدود ہوگئے ۔۔۔۔ پہلے پہل تو گھر بننے کی خوشی میں آنے جانے کا عارضی سمارٹ سا رستہ 6 فٹ چوڑا لگتا تھا مگر جیسے جیسے وقت گزر رہا ہے اور کام کی سست رفتار دیکھ کر اب اسی رستے سے آتے جاتے نہ جانے کتنی بار کبھی ہاتھ چِھلتے ہیں کبھی ٹھوکر لگتی ہے ۔۔۔۔۔
گھر بننے میں اتنے پھڈے ہوتے ہیں توبہ ہر کوئی سوا پانچ کلو کا منہ بنا کے بیٹھ جاتا ہے کہ اس کی مرضی نہیں چل رہی ، ایسی صورتِ حال میں مجھے آتی ہے ہنسی کہ ہم گھریلو تاریخ کے نازک ترین دور سے گزر رہے ہیں گھر میں رہتے ہوئے گھر کی تعمیر مشکل کام ہے ۔۔۔
ساتھ ہی ٹھیکیدار نے جو ڈرامہ رچایا ہے پلمبر اور الیکٹریشن اپنے بندے لانے کا اس وجہ سے دو پلمبر اور الیکٹریشن فرار ہوچکے ہیں ۔۔۔۔ اس نے یہ کہہ کر ڈرایا کہ یہاں کوئی سایہ وایہ ہے کام مت کرو اور فرار ہونے والے جاہل یہ نہیں سوچتے کہ وہ خود کس طرح کام کروارہا ہے ۔۔۔
خیر ہم بھی ڈرامے کی تہہ تک پہنچ ہی گئے مزید کوئی کام اس بدتمیز بنگالی سے نہیں کروانا ۔۔۔۔ لگتا تو یہی ہے کہ گرمی اور لوڈ شیڈنگ کے ساتھ سامان سے بھرے اوور لوڈڈ کمرے میں رمضان کیا عید بھی گزرے گی 🙄
جگہ کی تنگی سہی مگر ہمارے پھول پودے بھی ادھر ہی ہیں ان کے بغیر گزارہ مشکل ہے اور خوشی کی بات یہ کہ پودوں میں رہنے والی چھوٹی چڑیا بھی اپنی فیملی کے ساتھ ادھر شفٹ ہوگئی ہے 🙂

یادِ پروین شاکر ۔۔۔

تمہاری زندگی میں
میں کہاں پر ہوں؟
ہوائے صبح میں
یا شام کے پہلے ستارے میں
جھجھکتی بوندا باندی میں
کہ بے حد تیز بارش میں
رو پہلی چاندنی میں
یا کہ پھر تپتی دوپہروں میں
بہت گہرے خیالوں میں
کہ بے حد سرسری دُھن میں
تمہاری زندگی میں
میں کہاں پر ہوں؟
ہجومِ کار سے گھبرا کے
ساحل کے کنارے پر
کِسی ویک اینڈ کا وقفہ
کہ سگرٹ کے تسلسل میں
تمہاری انگلیوں کے بیچ
کوئی بے ارادہ ریشمیں فرصت؟
کہ جامِ سُرخ سے
یکسر تہی
اور پھر سے
بھر جانے کا خوش آداب لمحہ
کہ اِک خوابِ محبت ٹوٹنے
اور دُوسرا آغاز ہونے کے
کہیں مابین اک بے نام لمحے کی فراغت؟
تمہاری زندگی میں
میں کہاں پر ہوں؟
یہ نظم میں نے نیٹ سے کاپی کرکے یہاں پیسٹ کی ہے ، لگ رہا ہے کہ غلطیاں ہیں اور نام بھی نہیں لکھا ہوا نظم کا ۔۔۔ میں نے وضاحتی نوٹ اس لیئے لکھا کہ میرا دل نہیں چاہ رہا تنقید پڑھنے کا 🙂

آج کی محبت ۔۔۔

نئے زمانے کے عاشقوں کے نام جون ایلیا کا پیغام ۔۔۔۔
اے جانِ عہد و پیماں
ہم گھر بسائیں گے
ہاں !! تو اپنے گھر میں ہوگا
ہم اپنے گھر میں ہونگے ۔۔۔
لیکن محبت اور جنگ میں سب جائز ہے کل کے لیئے آج کیوں برباد کریں ڈیٹ پہ چلو مزے کریں گے 😛

رنگوں بھرا موسم ۔۔۔

رخصت ہوتی سردیوں کا بہت خوبصورت رنگوں بھرا موسم ہے آج کل ۔۔۔ مٹیالی فضا ۔۔۔ ٹنڈ منڈ خاکی ٹہنیوں پہ زندگی کی نوید دیتی ننھی سبز کونپلیں ۔۔۔ آنگن میں بچھی سرخ پتوں کی چادر پہ کبھی چمکیلی کبھی زرد دھوپ کی شعاعوں کا خوش رنگ منظر ۔۔۔ کبھی کبھار کوئی بھٹکا ہوا بادل کا ٹکڑا بھی نظر آجاتا ہے ۔۔۔ پودوں پہ منڈلاتے بھنورے ۔۔۔ کوئل کی شوخ ہوتی کوک اور رخ بدلتی ہوا کے انداز بتا رہے ہیں بہار آ چکی ہے ۔۔۔
اس وقت شفاف نیلے آسمان پہ چمکتے چاند ستارے اور چاندنی اس قدر دلفریب و حسین ہے کہ اگر میرے ارد گرد شور نہ ہوتا تو میں آنگن میں رکھی اپنی آرام دہ کرسی پہ بیٹھی چاند کی سیر کر آتی مگر ۔۔۔ اِرد گِرد سے بےنیاز ہونے کا گُر بھی آنا چاہیئے ۔۔۔۔

2013 in review

The WordPress.com stats helper monkeys prepared a 2013 annual report for this blog.

Here’s an excerpt:

The concert hall at the Sydney Opera House holds 2,700 people. This blog was viewed about 9,900 times in 2013. If it were a concert at Sydney Opera House, it would take about 4 sold-out performances for that many people to see it.

Click here to see the complete report.

« Older entries