بس یادیں باقی ….

نانی کہا کرتی تهیں دسمبر کے دکه ہمیں سقوط ڈهاکہ سے ملے ہیں اور صرف دسمبر کیا یہ دکه زندگی کی ہر سانس کے ساته ہے اور ایک تم ہو تمہیں دسمبر میں اٹکهیلیاں سوجهتی ہیں … اب میں نانی کو کیا بتاتی کہ جب ابرار کا بهیگا بهیگا دسمبر ہو ، عامر سلیم کی دسمبر میں منگل کی سہانی شام آجائے ، بہت سارے نیو ائیر کارڈز ملنے والے ہوں ، ساته بہترین شاعری کا ذخیرہ ہو جسے ایف ایم پہ سنا کر واہ واہ کے ساته مشہور ہونا مقصد ہو تو دسمبر کی حسین صبح ، اداس مگر خوبصورت شام اور خاموش راتیں مزید سحر انگیز ہوجاتی ہیں … اب یہ شوق گزرے وقت کا قصہ ہوئے بس یاد باقی …..
پهر وہی سال کے آخری دن ہیں جب نئے سال کی شاعری تلاش کرتے آدهی رات گزار کے دوپہر کو صبح ہوا کرتی تهی تو چائے کی خوشبو سے لطف اندوز ہوتے ہوئے دهوپ کی رنگت کے ساته فضا میں پهیلے گرد وغبار پہ بهی غور ہو جایا کرتا تها ، سارے کهیل وقت کے ہیں ….

مگر اب کے سال دسمبر کی دهوپ میں بیٹه کر گزرے وقت کی ایک یاد تازہ کرتے ہوئے اون سلائیوں سے کهیل رہی ہوں …2015-12-29 00.05.47
مجهے اس کام پہ پهر سے لگانے والی میری جانو بهتیجی ہے جس کی وجہ سے ہمارے ہاں زندگی پهر سے مسکرائی ہے … اللہ اسے نظر بد سے بچائے آمین ….
اس تحریر کو لکهنے میں تعاون رہا ، ابرار ، عامر سلیم ، امجد اسلام امجد اور ایک ہندوستانی گانے کا ورنہ میں اور ……. ہونہہ 😕

1 تبصرہ »

  1. […] Source of this Post […]


{ RSS feed for comments on this post} · { TrackBack URI }

تبصرہ کریں