ستمبر کی یاد میں …

اور تو کچھ یاد نہیں بس اتنا یاد ہے
اس سال بہار ستمبر کے مہینے تک آگئی تھی
اُس نے پوچھا
” افتخار ! یہ تم نظمیں ادھوری کیوں چھوڑ دیتے ہو”
اب اُسے کون بتاتا کہ ادھوری نظمیں اور ادھوری کہانیاں
اور ادھورے خواب
یہی تو شاعر کا سرمایہ ہوتے ہیں
پورے ہو جائیں تو دل اندر سے خالی ہوجاتا ہے
پھر دھوپ ہی دھوپ میں اتنی برف پڑی کہ بہت اونچا
اُڑنے والے پرندے کے پَر اس کا تابوت بن گئے
اور تو کچھ یاد نہیں بس اتنا یاد ہے
اس سال بہار ستمبر کے مہینے تک آگئی تھی ۔۔
افتخار عارف کی حرفِ باریاب سے انتخاب ۔۔

8 تبصرے »

  1. عثمان Said:

    پاک لوگ برسات بھگت رہے ہیں
    سیلاب میں نہائیاں نہائیاں کررہے ہیں
    اور آپ بہار کا انتظار کررہی ہیں
    کتنی ظالم ہیں
    😦

  2. ستمبر ميں بہار کب سے آنا شروع ہوئی ہے ؟

  3. جعفر Said:

    عمدہ

  4. md Said:

    میں نے اپنے طور پر کوشش کی کہ اُسی آھنگ میں پڑھوں جوکہ افتخار عارف کا خاصا ہے تاکہ لُطف اُٹھا سکوں بہر حال مکمل تو نہیں لیکن کسی حد تک لُطف اُٹھانے میں کامیاب رہا ہوں – بہت شُکریہ

  5. کیا بات ہے اِفتخار عارف کی شاعری کی،،،،
    مزہ آگیا پڑھ کر

    حِجاب جیو جب تک جی چاہے،،،

  6. شگفتہ Said:

    یہ بہار ستمبر تک ایسے ہی نہیں چلی آئی 🙂
    حجاب ، میں چکن شاشلک ود رائس بنانے لگی ہوں بہار کو جانے نہیں دینا

  7. hijabeshab Said:

    عثمان کچھ دیر کے لیئے بہار کا موسم سوچنے میں کیا ہرج ہے 😦

    اجمل انکل کل ہی آئی تھی رات میں جب یہ نظم پوسٹ کی ۔۔

    شکریہ جعفر

    ایم ڈی افتخار عارف کا تو الگ ہی انداز ہے ، میں نے بھی کبھی بہت کوشش کی تھی ایف ایم پر اُس انداز میں سنانے کی مگر افسوس ۔۔۔

    شکریہ شاہدہ آپی ۔۔

    شگفتہ آپ چکن شاشلک ود رائس بنا کر تصویر پوسٹ کریں اور اپنے بلاگ پر بہار لائیں 🙂

  8. شگفتہ Said:

    ایسا کریں بہار کو نہیں روکیں جانے دیں 🙂


{ RSS feed for comments on this post} · { TrackBack URI }

Leave a reply to شگفتہ جواب منسوخ کریں